افتخار رحمانی
سیاست کی افتاد بھی کیسی ہے کہ ا س جہان نشاط نومیں ہر ایک شخص آناچاہتا ہے اور اسکی شدید خو اہش بھی ہو تی ہے کہ شام و سحر اسی نشاط او رکیفیت میں گذرے تاہم تمام خواہشات ساحل بکنا رہو ں یہ ممکن نہیں اوروجہ بھی صاف ظاہر ہے لیکن یہ تو رند طبع کی آوارگی ہی کہہ لیں کہ ناممکنات کی تحصیل او رجستجو میں دنیائے طلب کو آباد کیے ہو ئے ہیں۔ سیا ست کبھی شریفو ں اور لائق و فائق حضرات کامیدان رہی ہو مگر آج کی سیاست تو ایسی ہو چکی ہے کہ ہر قسم کے نااہل او ر جمو د و تعطل کے شکار افراد اس کو اپنی پناہ گاہ خیال کرتے ہیں اور حقیقۃ واقعہ بھی یہی ہے کہ جس کو ملکی او رقومی مسائل سے کو ئی دلچسپی نہ ہو اور اس کے ذیل میں کو ئی سنجیدگی بھی نہ ہو تو وہ اس میدان کو اپنے لیے مو زوں خیال کر تا ہے اور شہرت و نامو ری کیلئے لاکھ جتن او رکو ششیں کرتاپھرتا ہے۔ سیاست تو ملکی و قو می مسائل کے حل اور پیدا شدہ اشکالات کے رفع کی غرض سے کی جاتی تھی لیکن آہ !خیر ہ مذاقی اور لذت کام و دہن کی ایسی نامعقول افتاد آن پڑی کہ و ہ لو گ جو کبھی پردہ سیمیں تک ہی محدو د تھے او رجن کامشغلہ طبع تفریح او روقت گذاری تھاوہ بھی اس میدان کے ہیرو بننے کی تمنائے ناتمام اور حسرت بیداد میں غلطاں پیچاں ہیں۔ اب ذرا خیال کریں جب گلیمر کارشتہ سیاست کی تلخ نو ائیوں سے مر بو ط ہو نے لگے تو اس صو رتحال میں سوائے سیاست و جمہوریت پر ماتم و سینہ کو بی کے کیا کیا جاسکتا ہے کیو نکہ گلیمر کی دنیا تو محض کافرانہ اداؤں ،حسن و شباب ،رخ گلفام اور جام تو بہ شکن کی متزلزل بنیادپر قائم ہے جب کہ سیاست تو تمام فسانو ں کو فرامو ش کرکے حقیقتو ں کی تلخ کامیو ں کو مستحکم و پائیدار بنیادو ں پر ہے اور ان ہی حقیقتو ں کی حق الو اجب شناسائیو ں کی و ساطت سے ہی اس دنیا کے کارہائے دراز طے ہو تے ہیں اگر ان میں ذرا بھی نفاق اورریا کاری ہو تو تمام سیا سی اقداراور جمہو ری بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں اور جن تنکو ں پر اس کا آشیانہ ہوتا ہے وہ ہو اؤں کے رحم و کرم ہوتا ہے۔ آہ!ہندو ستانی سیاست بھی کیا عجیب شی ہے کہ تمام تر زریں اصول کو یک لخت فرامو ش کرکے محض اپنے مفاد او رجاہ پرستی کی خاطرملک و قو م کی عزت او راپنی تہذیب و تمدن کو چند شو رش پسند ’مسخرو ں ‘کے حوالے کیاجارہا ہے کہ اب یہی ملک و قو م کے مستقبل کے لیڈرہو نگے کہ جن کی زندگی خود سیا ہ شب میں تیرگی کالبادہ او ڑھ چکی ہے او رسرتاسر حقائق سے طو طا چشم بھی ۔کیایہ سیا سی مجبو ر ی ہے یا کو ئی او رکوئی نامعقو ل عذر؟یہ تو ستم شعاری نہیں تو کیا ہے کہ ا س سیاست اور فکر بنائے قوم کو ورطہ بے فکر ی میں محو کرنے کی خاطر ’راکھی ساونت ‘کے ٹھمکے لگوائے جائیں اور پھر نو جوانو ں کے حواس باختہ کردینے والی فلمی جلو ہ گری ہو تو کیا ملک کے نازک او راہم عصری تقاضو ں کو عزم محکم کے ذریعہ پو را کیا جاسکتا ہے؟ یہ بدنام زمانہ راکھی ساونت اس عالم ’تلخ رسا ‘میں تنہا ہے بلکہ اس جیسے کئی او ربھی دیگر افرا د ہیں جو کسی نہ کسی سیا سی جماعت کے سر کے تاج ہیں اور اپنے مشہو راداؤں کے ذریعہ عوام کو لبھانے او رسیا سی وعدوں کے فریب میں الجھا کر ووٹ کیلئے متحرک و سر گر م ہیں اور یہ سیا سی جماعت بھی خوب ہے جو کسی نہ کسی طرح سے فلمی شہرت کو برو ئے کارلانا چاہتی ہے بعض کو ٹکٹ دے کر اس’ میدان کارزار ‘میں بغیر ساز و سامان اتار بھی دیا ہے ۔ا س جرم میں کو ئی بھی سیا سی جماعت پاک نہیں خواہ وہ طفل مکتب عآپ ہی کیو ں نہ ہو جس کو اپنے اس عزم ا و رامید ناموہوم پر کامل یقین ہے کہ وہ سیا ست کرنے کیلئے نہیں آئی ہے بلکہ سیاست میں پھیلی گندگی کو اپنے جھاڑوسے صاف کر نے آئی ہے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ نو رائیدہ جماعت سیا ست کے کھیل کو بگاڑنے آئی ہے او رستم تو یہ ہے کہ بعض سیکو لر اور ہو شمند قسم کے افراد بھی ا سکے دام فریب میں آچکے ہیں ۔راقم ایک بار پھر وضاحت ضروری سمجھتا ہے کہ یہ جماعت ایک آوارہ ہو ا کا جھو نکا ہے جو صرف اور صرف سیاسی بازی گری کالطف لینے آئی ہے الغرض تمام سیاسی جماعت ایک ہی حمام میں عریاں ہیں اگر اس ذیل میں عقل و ہو ش اور فکر ہو تی تو یقینااس گلیمر کا سہارانہ لیتی مگر آہ !سیاست کے اصل معنی مفقو د ہو گئے اور اس کی جگہ ذاتی مفاد اور خو د پسندی نے لے لیے ایک طرف جہاں اس کے معروف فلمی چہرے اپنی سابقہ جگہ پر بر قرار ہیں تو بعض نئے نئے چہرے بھی ازراہ نفاق شامل کرلئے گئے ہیں۔ شتر و گھن سنہا کو پٹنہ صاحب سے ایک بار پھر ٹکٹ دیا گیا ہے تو وہیں اپنے زمانہ کی ڈریم گرل ہیمامالنی کو متھراسے اتار ا گیا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے حسن ہائے شعلہ شرر سے نو جوانوں کیا ننگ پیری کو بھی مدہو ش کرکے ووٹ حاصل کرلیں اب ذرا اس گلیمر کی کشاکشی چنڈی گڈھ میں ملا حظہ کریں کہ جہاں ایک طرف گل پناگ عام آدمی کے ٹکٹ پر اپنی جلوہ فروشیو ں میں مصروف ہے تو وہیں کرن کھیر بھی غیرت حسن تصو رکرکے د ود و ہاتھ کرنے کیلئے تیا رہے ایسا کچھ بھی نہ ہوتا اگر ہمار ے ملک کی سیاسی جماعت قو م و ملک کے مسائل کے تئیں متفکر ہوتی ۔امیٹھی کو لوگ اس وجہ سے جانتے ہیں کہ یہ کانگریس کامضبو ط قلعہ ہے جہاں کسی ممو لا تو کجا شاہین کو بھی پر مارنے کی جرأت نہیں لیکن براہ راست راہل سے مقابلہ کرنے کیلئے ٹی وی اداکارہ سمر تی ایرانی آکھڑ ی ہو ئی ہے کہ لو گ خواہ فلاحی کامو ں کو دیکھ رہے ہو ں مگر ان عقل و ہو ش کے دیوانو ں کو مدہو شی اور حواس باختگی کی ایسی پر آشوب مے دینے کو تیار ہے کہ
لو گ یہ بھی بھو ل جائیں کہ اصل واقعہ کیا ہے او رکو ن ہمارے ووٹ کا مستحق ہے گو یا سمرتی ایرانی ساقی گری کیلئے بالکل تیار ہے کہ ان رندان کہن و نو کو ایک ایسی تلخ مے د و ں کہ وہ بہکیں ہی نہیں بلکہ بہک کر اپنے و جود غم سے آزادبھی ہو جائیں۔ اسی طرح پردہ ،سیمیں کا مسخرہ اعظم پریش راول اپنے تمسخر کا زندہ کر دار ادا کر نے احمدآباد سے تیا رہو گیا ہے کہ ’’ہیرا پھیری ‘‘کرتے کرتے ہیراپھیری کی زندہ تیسری کاپی تیار کرے ۔ویسے یہ حقیقت ہے کہ یہ تمام مسخرے اگر اس جنگ کی بازی مار بھی لیتے ہیں تو اصل میدا ن میں ابتداہی اپنی بے بسی کو تاہ قدمی ،او رپست ہمتی کامکروہ اظہار کردیتے ہیں کیو نکہ ان مسخرو ں کو اصل سیاست کاادراک بالکل بھی نہیں کہ یہ جہاں کن جگر فروشیو ں سے معمو رہے ۔
اس سیاسی کھیل میں صرف گلیمر ہی نہیں شامل ہے بلکہ کر کٹ کے ستار ے بھی ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک عدد سیٹ مل جائے اور وہ بھی ملک و قوم کے کام آسکیں کر تی جھاآزاد ،نوجوت سدھو اور اظہرالدین تو سیا سی جماعت کے اہم اور خاص رکن ہیں تاہم کانگریس نے اس ذیل میں کچھ زیادہ ہی شاطرانہ سرعت دکھائی کہ کرکٹ کے میدان میں اپنی چست اور برق رفتار فیلڈنگ کیلئے مشہو ر محمد کیف کو پھو لپور کیلئے ٹکٹ دیا تا کہ وہ اپنی برق رفتار ی کی خداداد صلاحیتوں کے با عث ووٹ کو لو ٹے ہی نہیں بلکہ کیچ کر لے او رجو ووٹ حزب مخالف کے حق میں جارہے ہیں ان کو یک لخت’’ڈرائیو ‘‘لگا کر اپنی جھولی میں بھر لے۔ عمو ما ساستداں شاطرانہ سو چ و فکر کے ہو تے ہیں مگر محمد کیف میں کچھ ایسی بات نہیں جو ان کو سیا ست داں ثابت کر تی ہو بلکہ ایک معصوم اسکو لی طالب علم کی طرح جو کہ صرف اتنا جانتا ہے کہ صبح ہو تے ہی نہا دھوکر اسکو ل جانا ہے اور پھر گھر آکر ہو م ورک کرنا ہے ،ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ محمد کیف باطنی طو رپر ہو ں مگر ظاہرا اپنے کو معصوم دکھارہے ہو ں محمد کیف برسو ں سے آؤٹ آف فارم چل رہے ہیں او رمتعدد نو جو ان کھلاڑیو ں کے ٹیم میں آجانے کے باعث ٹیم سے باہر ہیں ان کو اس کا افسو س بھی ہے او ران کے مداحو ں کو بھی لیکن یہ ،خیر ہے کہ وہ ایک نئی پاری کھیلنے کو تیار ہیں ان کے پرستاریہ دعا کررہے ہیں کہ یہ اننگ لمبی ہو اور ’بو لڈ‘ یا ’کیچ ‘ہونے کی افتاد سے پاک رہیں ۔ویسے گلیمر اور کرکٹ کا سیاست میں آنا بڑی بات نہ ہو تی مگر یہ وہ سیاست ہے کہ جہاں جمہوریت تو محض ایک ڈھو نگ ہے بلکہ مذہب پر ستی ،مفاد پرستی ، فرقہ پر ستی اور نہ جانے کو ن کو ن سی پر ستیو ں کا ایک طو فان بد تمیز بر پا ہے اور اس کے خو فناک و مہیب بازی کھیلی جارہی ہے کہ جہاں جمہوریت اور اکثریت صرف اور صرف عددی طاقت کی اکثریت پر قائم ہے اور اقتدار سازی صرف اور صرف ووٹ کی اکثریت کر تی ہے۔ بناء بریں خوفناک صو رتحال یہ ہے کہ اس سے ووٹ مجتمع نہیں ہو سکتا اورجس امر کیلئے جمہوریت کاشوالہ ہر پانچ سال کیلئے آراستہ ہو تا ہے وہ آراستگی بدنظری کی شکار ہو جائے گی اور سارے جمہوری اقدار اور ہندو ستانی روایت پس پردہ ہی رہ جائے گی ۔ذرا خیال کریں کیا اس عظیم بھارت کے تمام غارت گر عناصر باہم متحد نہیں ہوگئے ہیں وہ افراد جن کو یہ زعم ہے کہ وہ ’’بھارت ماتا ‘‘کی خدمت کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکے ہیں کیا وہ اس کے چپہ چپہ کو تقسیم کردینے پر آمادہ نہیں ہیں ؟آرایس ایس اور دیگر سخت گیر ہندو مذہبی تنظیمیں کیا اس پر کمربستہ نہیں ہیں کہ ا س دھرتی کو ان افراد سے پاک کر دیا جائے جنھو ں نے ا س’’بھارت ماتا ‘‘کے حسن ازلی میں اپنی شبانہ روز اور لازوال خدمات کے ذریعہ قابل صد رشک اضافہ کیا تھا اگر وہ بھارت ماتا کے سچے خادم ہیں تو پھر وہ فرقہ پر ستی پر آمادہ کیو ں ہیں ؟وہ مذہب کے نام پر ووٹ کیو ں حاصل کرناچاہتے ہیں ؟آخر وہ نوجوانوں کو مذہبی غیرت دلاکر چراغ پاکیو ں کرتے ہیں ؟سوالات تو لاکھو ں ہو نگے مگر ان تمام سوالو ں کا ایک ہی جواب ہے کہ ان کو محض اپنے مطلو بہ ووٹ کے اہداف کو حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان کو اسی سے خاطر تعلق ہے مذہبی رنگ اور نعرے تو محض یہ ڈھونگ ہیں جس کے تو سط سے ووٹ حاصل کیا جا سکے بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ان ہی چیزوں کو ملحو ظ رکھا ہے جو اس کا ازل سے ایجنڈہ ہے اور ہمیشہ سے جن چیزوں کی طرف نشاندہی کرتی آرہی ہے پھر آخر اگر ہم یہ درست مان بھی لیں تو بھی از روئے قول خود بی جے پی وہ بھارت ماتا کے دشمن ازلی ہیں کہ بھارت کو سب سے بڑاخطرہ ان ہی سخت گیر مذہبی جنو نیوں سے ہے ۔خدام وطن اگر یہ سو چ لیں کہ ہمیں انسانیت او رہندو ستانیت کیلئے کام کرنا ہے تو میرے خیال و تصور سے بھارت کیلئے یہ نیک شگو ن ہے مگر ہائے رے بد نصیبی !ان سخت گیر مذہبی جنو نیو ں کی فطر ت ان اصول کے منافی ہے ۔
یہ فلمی لٹکے جھٹکے اور حسن شعلہ نفس کا بھی اس سیاست کی خاردار وادی میں استقبال ہے کہ آخر ان کے دل میں بھی مادر وطن کی محبت بیدا رہو گئی اور وہ بھی ملکی تنزلی کے سدباب کیلئے کمر بستہ ہو گئے لیکن افسوس اس عظیم بھارت کی بدقسمتی کہ یہ لو گ خو د اپنی مرضی او رحسن خیال کے بمو جب نہیں آئے ہیں بلکہ ان کو سیاست میں لایا گیا کہ سیاسی رنگ و رو غن میں فلمی تڑکہ لگایا جائے اور ان اسٹاروں کی مقبولیت کا خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جائے۔ آخرش مر حوم جگر مرادآبادی کایہ مصرع ان لو گو ں کیلئے مفید کام کر گیا کہ
معمے نہیں ہیں یہ سمجھانے والے